قیصر کمال نیازی
۲۱؍جون عالمی یوگا ڈےYOGA DAY بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا اور اس سے پہلے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہ بات دماغ میں اتارنے کی کوشش کی گئی کہ یوگا صرف ایک ورزش ہے، مختلف طریقہ سے جب اسکی حقیقت سامنے آنے لگی تویہ کہا گیا کہ ’’اوم‘‘ پڑھنا ضروری نہیں ہے پھر اس کے بعد یہ کہا گیا کہ سوریہ آسن (سورج) جو نہ چاہیں نہ کریں پھر یہ کہا گیا کہ مختلف آسنوں میں اشلوک پڑھنا بھی ضروری نہیں ہے اس طرح تدریجاً یہ کوشش کی گئی کہ یوگا کو ان لوگوں کے دلوں میں اتاراجائے جو کسی بھی وجہ سے اس سے الگ رہنا چاہتے ہیں۔
سادھوی پراچی نے اور مختلف لیڈروں نے یوگا نہ کرنے والوں پر الفاظ کے تیر چلائے اور یہاں تک کہہ دیا کہ یوگاقدیم ہندوستانی کلچر کا حصہ ہے جو لوگ نہیں کرنا چاہتے ہیں، وہ پاکستان چلے جائیں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ پراچی اور ان جیسے لوگ ایسے کتنے لوگوں کو پاکستان بھیجیں گے یا بحیرۂ عرب میں ڈال دیں گے جنہوں نے یوگا نہیں کیا۔ انہیں سب سے پہلے بی جے پی کے صدر امت شاہ کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے معین الحق اسٹیڈ یم پٹنہ میں یوگاپربھاشن تو دیا مگر انہوں نے یوگا کیا نہیں۔ وہ یوگا کرمیوں کو دیکھتے رہے۔
بھارت میں ایک بہت بڑے طبقہ کا یہ ماننا رہا ہے کہ یوگا برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا اٹوٹ انگ ہے اسلئے سکھوں،مسلمانوں، عیسائیوں اور بہت سے ہندوؤں نے یوگا ڈے سے دلچسپی نہیں لی ورنہ مرکزی حکومت بی جے پی اورآرایس ایس کی زور آزمائی کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ صرف ۳۶؍ہزار افراد یوگا نہیں کرتے۔
یوگا ڈے کے بعد مرکزی وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی نے مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے اسکولوں میں چھٹی سے دسویں کلاس تک کے طلبہ کیلئے یوگا کو لازمی قرار دے دینے کا اعلان کیا، یوگا کے ٹیچروں کی بحالی، نصابی کتابوں میں یوگا کی تعلیم اور ان جیسی کئی چیزیں ان کے اعلان کا حصہ تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ایک سیکولر ملک میں حکومت کسی خاص مذہب یا خاص تہذیب سے وابستہ ہوکر اس کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکتی ہے یا نہیں؟ آئین ہند نے حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام عمل سے روکا ہے اور آئین ہند کی کئی بنیادی دفعات اس سلسلے میں بہت واضح ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یوگا برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا حصہ ہے یا نہیں؟
سب سے پہلے یوگ، یوگا اور یوگی کو ذہن میں رکھئے۔ یوگ سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ملانے اور جوڑنے کے آتے ہیں۔ یوگا وہ عمل ہے جو ملانے اور جوڑنے کا کام کرے اور یوگی وہ شخص ہے جو اس کام کو انجام دے۔
برہمنی دھرم کی اصطلاح میں انسان اس کی روح اور پر ماتما کے جوڑکو یوگ کہتے ہیں، وِدّوانوں (ماہرین) کی رائے ہے کہ ’’جیو،آتما پرماتما کے مل جانے کو یوگ کہتے ہیں‘‘ شری کرشن جی نے ارجن جی کو یوگ کی تعلیم دی، بھاگوت گیتا کا چھٹا باب یوگا پر مشتمل ہے اور اس باب کا نام بھی یوگا ہے ساڑھے تین سو صفحے کی کتاب بھاگوت گیتا میں تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر چھٹا باب مشتمل ہے کرشن جی نے ارجن جی کو جہاں یوگا کی تعلیم دی وہی یہ نصیحت بھی کی کہ ’’یوگا کرمسو کو شیلم‘‘ کرم (عبادت) کو مہارت کے ساتھ کرنا یوگا ہے) کرشن جی کی یہ نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ یوگی کا یوگا یوگ اس وقت بنتا ہے جب اس میں مہارت ہو
برہمنی دھرم میں شروع زمانے سے یوگا کو بہت اہم مقام حاصل ہے، شیوجی کو یوگا کرتے دکھایا گیا ہے اور گیتا مہابھارت اپنشد وید جیسی بنیادی دھارمک کتابوں میں یوگا کی اہمیت کو بہت مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے، پتنجلی نے یوگا کو ایک فن کی حیثیت دی اور اس کے بڑے فوائد گنائے
ہیں، یوگا کی بڑی اہم خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں دھیان کے ذریعہ گیان کی پراپتی ہوتی ہے اور منوش اپنی آتما اور اپنے اندر چھپے ہوئے پرماتما کو پالیتا ہے اس میں یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ غیب کی چیزوں کو جان لے
یوگا کا ایک بڑا مقصد دنیا کی تمام تکلیفوں اور آشائشوں سے الگ ہوجانا اور پیدائش اور موت کے چکر سے چھٹکاراپالینا بھی ہے، مہابھارت میں یوگ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ منوش euq"; برہماکی دنیا میں پرویش کرسکتا ہے (داخل ہوسکتا ہے) یوگا کے جو فوائد بنیادی دھارمک کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ یوگا روح کو پاک کرتا ہے یوگی کو روحانی ہدایت حاصل ہوتی ہے روحانیت میں ترقی ہوتی ہے پرماتما خوش ہوتا ہے یوگی میں ایک غیبی طاقت سماجاتی ہے، یوگی آگ پانی ہوا پر کنٹرول کرسکتا ہے، یوگی کو پچھلے جنموں کی باتوں کا پتہ چل جاتا ہے، اور وقت سے پہلے ہونے والے واقعات کا علم ہوجاتا ہے، یوگی کو اپنی موت کے وقت کی خبر ہوجاتی ہے،
یہ ساری خصوصیتیں جو یوگ کی بیان کی گئیں ان کا اثر عقیدہ اور عمل پر پڑتا ہے،
لفظ ’’اوم‘‘ سے یوگا کی ابتدا ہوتی ہے اور ہر مرحلے میں ’’اوم‘‘ کا جاپ ہوتا ہے لفظ اوم برہمنی عقیدہ کے مطابق پرمیشور(برہما وشنو، مہیش) کو پکارنے کیلئے بولا جاتا ہے،
یوگا کا پہلا آسن سوریہ آسن ہے جس میں سورج کو نمشکار کیا جاتا ہے اسکی ابتدا بھی اوم سے ہوتی ہے اور پھر اوم آدتیائے نمہ۔ اوم ساوترائے نمہ۔ اوم آرکائے نمہ۔ اوم بھاسکریائے نمہ۔ کا جاپ کیا جاتا ہے (ترجمہ: نمشکار اس کو جو آدیتی کا بیٹا ہے نمسکار اس کو جو زندگی کا مالک ہے نمسکار اس کو جو تعریفوں کا حقدار ہے، نمسکار اس کو جو تقدیر اور عقل کا دینے والا ہے) اور یہ بھی پڑھاجاتا ہے:
اوم گروربرہمہ اوم گرورویشنو اوم گروردیومہیشور گرو ساکشت پر براہمہ
(گرو برہما ہے گرو وشنو ہے گروشیو ہے میں ان گروؤں کے آگے جھکتا ہوں)
بھونما یہ منتر اسمدرا وسنے دیوی پرور تھنہ نمستھوہیوم پدشپرسم کشما وسم۔ (یعنی بھو دیوی آپ کا لباس سمندر ہے پہاڑ آپ کا سینہ ہے میں آپ کے آگے جھکتا ہوں میرے گناہوں کو معاف کردیجئے) اتنے سارے منتر اور جاپ صرف سوریہ آسن کے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی جاپ ہیں جو سوریہ آسن میں پڑھے جاتے ہیں تب کہیں جاکر سوریہ آسن کا عمل پورا ہوتا ہے۔
یوگ کے بہت سے آسن ہیں اور ہر آسن میں مختصر یا طویل جاپ ہیں تب یوگا مکمل ہوتا ہے اسطرح یوگا ایک مکمل مذہبی عمل اور ایک طریقہ عبادت اور بھکتی کی راہ ہے یوگ کی بنیاد میں کہیں بھی صحت اور حفظان صحت کی بات نہیں کی گئی ہے اور نہ دھارمک کتابوں میں یوگا کو صحت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
ویدک عہد سے پہلے ہی یوگ کا عمل جاری تھا اور ویدک دور میں یہ ویدک کلچر کا بھی حصہ بن گیا پرانی مورتیاں موہن جوداڑو اور ہڑپا کے نقش و نگار بھی یوگ کے شہادت دیتے ہیں اور یوگ کے ایک اہم حصہ جنسیات کے آثار بھی مورتیوں اورنقش و نگار کی شکل میں ملتے ہیں اسطرح برہمنی دھرم کا اثر کلچر اور تہذیب پر نمایاں رہا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ یوگ برہمنی دھرم اور ویدک کلچر کا اہم حصہ ہے۔آئین ہند کی رو سے حکومت ہند کا کوئی مذہب نہیں ہے اور نہ حکومت کسی مذہب یا تہذیب کی اشاعت کرسکتی ہے۔ اس لئے آئین ہند کے پیش نظر یوگ کی سرکاری سرپرستی غلط ہے اور اسے سرکاری تعلیم گاہوں میں رائج کرنا نصابی کتابوں میں شامل کرنا اس کے لئے ٹیچر بحال کرنا اسکی حوصلہ افزائی کیلئے حکومتی سطح پر انعامات دینا ہندوستان کے آئین کے خلاف اقدامات ہیں۔